ایسے لوگ معمولی معمولی باتوں پر ماتحتوں کو ڈانٹتے ہیں یا اونچی آواز میں بات چیت کرتے ہیں اور بعض اوقات حد سے زیادہ بولتے ہیں ان کے اس رویے کی وجہ دراصل ان کے اندر چھپا ہوا وہ بے بسی یا کمتری کا احساس ہوتا ہے جس کو وہ قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔
اکثر و بیشتر ہمارا ایسے لوگوں سے واسطہ پڑتا رہتا ہے جن کا رویہ مخصوص حالات میں عجیب و غریب اور کسی حد تک پریشان کن ہوتا ہے ایسے لوگ نہ صرف دوسروں کیلئے پریشانی پیدا کرتے ہیں بلکہ خود اپنا ذہنی سکون بھی تباہ وبرباد کرلیتے ہیں مثلاً بعض لوگ اپنے ماتحت افراد کو احکامات صادر کرتے ہوئے یا غصے میں ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے نمایاں حد تک اعصابی کمزوری میں مبتلا ہوجاتے ہیں ان کے ہاتھ اور بعض اوقات پورا جسم کانپنے لگتا ہے آواز بھرا جاتی ہے اور چہرے کی رنگت تبدیل ہوجاتی ہے اسی طرح بعض ماتحت افراد افسران کی ذرا سی بھی ناراضگی اور غصے کے اظہار پر سخت خوفزدہ ہوجاتے ہیں وہ اپنی معمولی سی غلطی پر حد درجہ پشیمان دکھائی دیتے ہیں‘ اسی طرح بعض مائیں اپنے بچوں سے حیران کن حد تک نرمی سے پیش آتی ہیں وہ اپنے بچوں کی چھوٹی موٹی اور اکثر اوقات بڑی بڑی غلطیاں بھی معاف کردیتی ہیں اور ان کی اس عادت کا اولاد بعض اوقات ناجائز فائدہ بھی اٹھاتی ہے اسی قسم کے رویے کا اظہار بعض اوقات باپ بھی کرتے ہیں لیکن دوسری جانب ایسے والدین بھی موجود ہیں جو اپنی اولادوں کیلئے نہایت سخت گیر واقع ہوتے ہیں وہ بچوں کی چھوٹی چھوٹی غلطیاں یا شرارتیں بھی نظرانداز کرنے پر تیار نہیں ہوتے نتیجتاً اولاد میں باغیانہ جذبات پروان چڑھنے لگتے ہیں اسی قسم کے غیر معمولی رویوں کو نفسیاتی الجھنوں کا نام دیا گیا ہے جسے ماہرین ’’کمپلیکس‘‘ کے لفظ سے بیان کرتے ہیں۔بعض لوگ حد سے زیادہ تنہا پسندی کے عادی ہوتے ہیں انہیں اپنے معاملات میں کسی بھی دوسرے شخص کی مداخلت گوارا نہیں ہوتی وہ انتہائی کم گفتگو کرتے ہیں مزاج میں چڑچڑاپن عام ہوتا ہے جبکہ ایسے بھی لوگ ملیں گے جو انتہائی باتونی ہوتے ہیں ہر شخص سے دل کے دکھڑے بیان کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے اور اکثر اوقات بور کردینے کی حد تک گفتگو کرتے ہیں ماہرین نفسیات کے خیال میں ان تمام غیرمعمولی افعال کے پیچھے کوئی نہ کوئی پوشیدہ محرک ضرور کارفرما ہوتا ہے جو بچپن کے دور سے تہوں کی صورت میں دماغ کے نہاں خانوں میں جمع ہوتے رہتے ہیں اور بالآخر عہد بلوغت میں کسی لاوے کی طرح تباہی پھیلانے کیلئے امڈپڑتے ہیں ایسی صورت میں انسان کا کردار ایک ہیجانی تحریک کے ماتحت حد درجے جذباتی ہوجاتا ہے نفسیاتی اصطلاح میں ان پوشیدہ جذبات کو کامپلیکس کا نام دیا جاتا ہے چونکہ مختلف النوع ذہنی الجھنیں یا پریشانیاں عموماً اسی اندرونی محرک کی مرہون منت ہوتی ہیں اس لیے ماہرین ہر نفسیاتی مسئلے کو کامپلیکس کے مفہوم میں لے لیتے ہیں۔ ویسے تو کمپلیکس کی کئی اقسام بیان کی جاتی ہیں لیکن دو قسم کے کمپلیکس زیادہ عام ہیں اور حقیقت تو یہ ہے کہ انہی سے نفسیاتی الجھنیں جنم لیتی ہیں۔
(1)احساس کمتری (2)احساس برتری
احساس کمتری: معروف ماہر نفسیات فرائیڈ کا کہنا ہے کہ انسان میں کچھ حاصل کرنے یا کامیاب ہونے کا کائناتی رجحان دراصل اس احساس کمتری کا مرہون منت ہوتا ہے جو بچپن کے دباؤ پر حالات کے باعث ذہن میں بتدریج نشوونما پاتا رہتا ہے اس احساس یا کمپلیکس کی تعمیر اس طرح ہوتی ہے کہ بچپن میں بچہ جب چھوٹا ہوتا ہے تو خود کو بڑا بے بس محسوس کرتا ہے وہی کچھ کرنا پڑتا ہے جو اس کے والدین یا بااختیار لوگ کرنا چاہتے ہیں اس میںاس کی پسند یا ناپسند کا خیال نہیں رکھا جاتا‘ اسے ہر چیز اپنے سے زیادہ طاقتور اور بااختیار لگتی ہے اور یہی بے بسی کا احساس اور مستقل دباؤ احساس کمتری کی بنیاد رکھنے کا سبب بنتا ہے۔ اس قسم کی یادیں یا احساسات دو اقسام کے رویوں کو جنم دیتے ہیں جو ایک دوسرے سے قطعی متضاد ہوتے ہیں ان میں سے ایک طبقہ دوسروں کے سامنے حد سے زیادہ منکسرالمزاج اور فرمانبرداری کا رویہ اختیار کرلیتا ہے اس میں ہر کام دوسروں کی خواہش کے مطابق انجام دینے کا رجحان ہوتا ہے یہ لوگ جس طرح بچپن میں دوسروں کی ناراضگی سے خوف کھاتے تھے اب بھی اسی طرح ڈرے اور سہمے انداز میں زندگی گزارتے ہیں ایسے افراد کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ حتی الامکان دوسروں کی تنقید سے خود کو محفوظ رکھیں تاکہ انہیں کوئی ناپسندیدہ قرار نہ دے۔ ان کیلئے یہ احساس اذیت ناک ہوتا ہے کہ کوئی ان کے متعلق غلط رائے کم کرلے۔ وہ خوش اخلاقی کو اپنا وطیرہ بنالیتے ہیں ایسے لوگوں کی زبان سے’’نہیں‘‘ یعنی انکار کا لفظ کم ہی نکلتا ہے لیکن بعض اوقات ان کی حد سے زیادہ فرمانبرداری بھی انہیں دوسروں کی نظروں میں غیراہم بنادیتی ہے یہ لوگ عام زندگی سے دور ہوجاتے ہیں۔
احساس برتری: دوسری جانب ایسے ہی دباؤ پذیر حالات کے تحت پروان چڑھنے والے افراد اول الذکر طبقہ سے قطعی متضاد رویہ اختیار کرتے ہیں ان میں جارحانہ پن در آتا ہے وہ خود کو یہ کہہ کر مطمئن کرتے رہتے ہیں کہ وہ بھی اب بااختیار ہیں‘ دوسروں پر رعب جماسکتے ہیں ایسے لوگ معمولی معمولی باتوں پر ماتحتوں کو ڈانٹتے ہیں یا اونچی آواز میں بات چیت کرتے ہیں اور بعض اوقات حد سے زیادہ بولتے ہیں ان کے اس رویے کی وجہ دراصل ان کے اندر چھپا ہوا وہ بے بسی یا کمتری کا احساس ہوتا ہے جس کو وہ قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ لوگ ان سے خوف کھائیں تاکہ کوئی ان کے اندر جاگزیں احساس کمتری کو جگا نہ سکے اور اس طرح ان کے پوشیدہ جذبات کو برانگیخۃ نہ کرسکے ایسے افراد کا گھر والوں سے رویہ بھی عموماً زیادہ اچھا نہیں ہوتا۔ وہ اپنی بیوی بچوں کیلئے بھی نہایت سخت گیر واقع ہوتے ہیں‘ ہر فیصلہ خود کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہاں تک کہ دوست احباب سے مشورہ لینا بھی انہیں پسند نہیں ہوتا‘ ایسے لوگ ممکن ہے مالی اعتبار سے مضبوط اور مستحکم زندگی گزار رہے ہوں لیکن وہ لوگوں کی نظروں میں پسندیدہ شخصیت نہیں رہتے۔
شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جس کا واسطہ زندگی میں کبھی نہ کبھی کامپلیکس سے نہ پڑا ہو تاہم اکثر افراد خود کو اس سے باہر نکالنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں وہ فوراً اپنے رویوں میں تبدیلی پیدا کرلیتے ہیں تاہم وہ لوگ جو فطری طور پر بہت حساس ہوتے ہیں ان میں کسی نفسیاتی الجھن کا شکار ہوجانے کا زیادہ رجحان ہوتا ہے خوش قسمتی سے ان نفسیاتی الجھنوں سے پیدا ہونے والی تکالیف کم کی جاسکتی ہیں‘ ہیجانی تحریکات کو ختم اور کمپلیکس کا سائیکلوتھراپی کے ذریعے کامیاب علاج کیا جاسکتا ہے لیکن اس کیلئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ کامپلیکس کے شکار افراد خواہ اس کی نوعیت کوئی بھی ہو اس بات کو تسلیم کرلیں کہ ان سے سرزد ہونے والے افعال غیرمعمولی ہیں اور اس سے نہ صرف ان کی اپنی ذات کو بلکہ ان سے وابستہ دیگر افراد کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔
ذہنی الجھنوں سے بچنے کیلئے چند باتیں یاد رکھیں!۔وقت کے ساتھ ساتھ خود کو بدلنے کی صلاحیت پیدا کریں۔ حد سے زیادہ حساسیت کا مظاہرہ نہ کریں۔ چھوٹی موٹی پریشانیوں کو زندگی کا حصہ سمجھیں۔ ’’رات گئی بات گئی‘‘ والا کلیہ اختیار کریں۔ اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ اگر آپ کو اپنے غیرمعمولی افعال پر قابو نہیں تو کسی ماہر سے رجوع کریں۔ ماضی کو قصہ پارینہ سمجھ کرحال پر نظر رکھیں یوں مستقبل بھی سنور جائے گا اور نفسیاتی الجھنوں سے بھی ایک حد تک محفوظ رہیں گے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں